اتوار، 1 فروری، 2015

اعجاز عبید سے دس سوالات

جس طرح انٹرنیٹ پر اردو کتابیں یا دوسری ادبی و غیرتحریریں اپلوڈ کرنے والے اداروں کے کچھ حقوق ہوا کرتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ کے قاری کا یہ حق ہے کہ جو مواد کاپی رائٹ کے زمرے سے باہر ہو، یا جسے مصنف نے بغیر کسی معاشی فائدے کی غرض کے اپنی خوشی سے اپلوڈ کرنے کی اجازت دی ہو، اسے یونی کوڈ میں فراہم کرایا جائے یا ڈائونلوڈ ایبل رکھا جائے۔کیونکہ یہی دو ذرائع کتاب یا تحریر کو پھیلانے، لوگوں میں عام کرنے اور آسانی سے پڑھنے کے سلسلے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔اعجاز عبید نے یونی کوڈ میں اردو ادب اور شاعری کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، وہ تقریبا پندرہ سالوں سے لگاتار اردو کو انٹرنیٹ پر عام کرنے کی مہم سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی تیار کی ہوئی بزم اردو لائبریری میں سینکڑوں کتابیں موجود ہیں، بہت سی کتابیں جن کے مکمل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکی ہے، انہوں نے اس کے تھوڑے بہت حصے کو شائع کردیا ہے، تاکہ قارئین تک اس کا کچھ حصہ پہنچے اور وہ مکمل کتاب کو حاصل کرنے کی طرف راغب ہوسکے۔انہوں نے 'سمت 'نامی ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا، ان سے دس سوالوں کے دوران ان کی خدمات اور خیالات جاننے کا موقع ملا ہے، میں اس انٹرویو کے لیے ان کا شکرگزار ہوں، امید ہے یہ مکالمہ آپ سب کو بھی پسند آئے گا۔

تصنیف حیدر: اردو کو انٹرنیٹ کے ذریعے فروغ دینے کا کام آپ کب سے کر رہے ہیں، اور اس میں کس قدر کامیابی ملی ہے؟

اعجاز عبید: پہلے تو کمپیوٹر میں دلچسپی شروع ہوئی۔ یہ 1988یا 1989 کی بات ہے۔ جب دفتر میں کمپیوٹر کی ٹریننگ حاصل ہوئی۔ اس وقت ڈی بیس میں پروگرامنگ شروع کی۔ اپنے فیلڈ ورک سے حاصل جیو کیمیکل ڈیتا کو ڈی بیس میں پروسیس کرنے کے لئے پروگرام بنایا، بلکہ تین چار سال تک اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا گیا۔ بعد میں جب ونڈوز 95 دفتر میں آ گئی تو پھر ورڈ پروسیسنگ میں بھی دلچسپی شروع ہوئی، اور اسی وقت سے اردو اور ہندی کے دستیاب ٹولس کی تلاش ہوئی۔ میں اپنے دفتر میں بھی ہندی کا لائیسن آفیسر تھا۔ اور جب نہیں بھی تھا، تب بھی ہندی میں سارے کام کے لئے میری خدمات ہی لی جاتی تھیں۔1996 میں گھر میں بھی پہلا کمپیوٹر خریدا جو پرنٹر وغیرہ ملا کر پورے ایک لاکھ کا پڑا، جس کی ہارڈ دسک بھی عظیم الشان 230 میگا بائٹ کی تھی۔ 1997 میں حج کیا اور اس کا سفر نامہ لکھا۔ ’اللہ میاں کے مہمان‘ کے نام سے۔ اور اردو کے لئے سافٹ وئر کی تلاش ہوئی۔ جیلانی بانو اور انور معظم کے بیٹے اشہر فرحان جو ’اردو صفحہ ساز‘ (اردو پیج کمپوزر) کے خالق تھے (اپنے دوست راجیو سکسینہ کے تعاون سے) سے دو فلاپیوں میں یہ شئر ویر ورژن حاصل کیا، لیکن یہ یوزر فرینڈلی محسوس نہیں ہوا۔ 1999 میں پہلی بار انٹر نیٹ لیا تو انٹر نیٹ سے ہی ان پیج کا پرانا ورژن ملا۔ اس پر ٹائپ کرنا سیکھا۔ تب تک یونی کوڈ سے واقفیت نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے کسی بہتر اردو ہندی فانٹ کی تلاش میں جب ناکامی ہوئی۔1999میں ہی ہندی میں پارۂ عم کی تفسیر بھی شروع کی اور اردو ہندی دونوں کے ٹولس ڈھونڈھتا رہا۔ 2001 اور 2002 میں تین عدد یاہو گروپس بنائے یکے بعد دیگرے۔
urdu_computing
indic-computing
quran-in-hindi
اور اسی کے ساتھ ہندی کے کئی فانٹس بھی بنائے، اور اردو کے نستعلیق فانٹس بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ خاص کر اردو کمپیوٹنگ گروپ بہت مشہور ہوا، اردوستان ڈاٹ کام کے کاشف الہدیٰ نے بھی ’اردو کمپیوٹنگ گروپ‘ بنا رکھا تھا (اسی لئے مجھے اپنے گروپ کے نام میں انڈر سکور کا اضافہ کرنا پڑا)۔ انہوں نے ہی اس گروپ کو بھی ختم کر کے میرے گروپ میں مرج کر دیا۔ شروع میں اردو کمپیوٹنگ کے تمام اہم نام اس گروپ کے ہی وسیلے سے سامنے آئے۔ اسی گروپ میں یونی کوڈ پر بھی گفتگو ہوئی، اور تب معلوم ہو گیا کہ اسی طرح اردو اور ہندی میں بغیر کسی مخصوص سافٹ وئر کے ٹائپ کرنا ممکن ہو گا۔اسی گروپ کے توسط سے جرمنی میں مقیم نبیل نقوی اور امریکہ میں رہائش پذیر زکریا اجمل سے ربط ہوا، نبیل نے ایک اردو ایڈیٹر بنا رکھا تھا اور وہ چاہ رہے تھے کہ یونی کوڈ اردو کی ترقی اس طرح ممکن ہو سکے گی کہ ایسی کوئی فورم بنائی جائے جس میں ارکان بغیر کسی سافٹ وئر کے انگریزی کی ہی طرح اردو لکھ سکیں۔ چنانچہ اس کا نام آپس میں طے کر کے اردو محفل رکھا گیا، لیکن ڈومین اردو ویب مل سکا (یہ نام بھی مشترکہ مجوزہ تھا)۔ بہر حال یہی اردو محفل یونی کوڈ اردو کی پائنیر سائٹ ثابت ہوئی۔ اور اسی میں افسانہ نگار ایم مبین نے لائبریری کی تجویز رکھی، اور سارے والنٹئر اس میں کود پڑے۔ نومبر 2005 میں بلاگسپاٹ پر میں نے ’سمت‘ کا پہلا شمارہ نکالا۔http://samt.blogspot.com پر۔ اس وقت تک نفیس نستعلیق وجود میں آ چکا تھا جو اگرچہ بہت سست رفتار تھا، لیکن بلاگسپاٹ پر اسی کو استعمال کیا گیا تھا۔بعد میں قدیر احمد (جنہوں نے پی ایچ بی بی بی کا اردو ترجمہ کیا تھا جو اردو محفل پر استعمال ہوا تھا) نے مجھے آئی فاسٹ نیٹ کا مشورہ بلکہ ڈومین بنا کر دیا تو میں نے ‘سمت‘ بھی وہاں منتقل کر دیا اور لائبریری بھی۔ اور اس کا فانٹ بھی اپنا بنایا ہوا ’اردو نقش‘ لگایا۔ یہ دونوں سائتس تھیں۔
http://samt.ifastnet.com
http://kitaben.ifastnet.com
ایک الگ سائٹ کی ضرورت اس لئے محسوس کر رہا تھا کہ ٹائپ تو اردو محفل کے ارکان کر رہے تھے، لیکن یہ سارا کام محض فورم پر ہی تھا۔ نبیل نے اسے وکی پر بھی شفٹ کیا لیکن وہاں احباب کو شاید کام کرنے میں دقت ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ میری دوسری دلچسپی لینکس تھی، اور چاہتا تھا کہ اردو میں ہی آپریٹنگ سسٹم بن جائے تو کیا اچھا ہو۔ اس سلسلے میں سعود عالم (ابن سعید) کا نام سنا جو خود بھی محفل میں آ گئے (اور ایسے فعال ہوئے کہ اب اس کے منتظم اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔)۔ انہوں نے heroku سے متعارف کرایا۔ اور میں نے ’سمت‘ کو بخوشی ہیروکو پلیٹ فارم پر شفٹ کر دیا۔ لائبریری کے لئے سعود کوئی اپلی کیشن بنانے والے تھے، وہ تو مکمل نہیں ہوئی، لیکن اردو ویب کا ہی ایک ڈومین اردو لائبریری تھا، جس پر ایک بار سو کتابیں (ان میں بھی زیادہ تر وہی کتب تھیں جو میری جمع کی ہوئی تھیں) اپ لوڈ کر کے اس کے بعد کچھ اپڈیٹ کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس ڈومین کا ایک سب ڈومین مجھے آفر کیا اور اس طرح
http://kitaben.urdulibrary.org
وجود میں آیا۔ 2013 میں سیف قاضی نے فیس بک کی نوعیت کا پلیٹ فارم بزم اردو بنایا، اور اس میں ’سمت‘ اور ’لائبریری‘ کے سب ڈومین میرے تصرف میں دے دئے۔ بعد میں سوشل نیٹ ورکنگ تو ناکام رہی، بزم اردو لائبریری کا ہی نام ہو گیا۔ بہر حال یہاں سوال صرف ’سمت‘ کا ہے، اس لئے یہ بھی کہہ دوں کہ اب تک اس کے 25 شمارے نکل چکے ہیں۔

تصنیف حیدر: ہندوستان کے کسی بھی زبان و ادب کو فروغ دینے والے ادارے نے 'یونی کوڈ'میں لٹریچر کو فراہم کرانے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی، کیا یہ بات سچ ہے؟ایسا کیوں ہے؟

اعجاز عبید: یونی کوڈ میری پسند اسی وقت سے رہی ہے جب کہ مجھے اس کا علم ہوا۔ یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ اردو ویب کے شروع کے زمانوں میں یعنی جولائی 2005 سے 2008 یا 2009 تک اردو محفل میں رکن کی حیثیت سے اردو کے لئے کئی کی بورڈس اور فانٹ بھی بنائے۔ نستعلیق فانٹس تب تک نہیں بنے تھے، لیکن جی چاہتا تھا کہ اس قسم کے فانٹ ہوں۔ چنانچہ کچھ ان پیج کے نوری نستعلیق اور کچھ دوسرے فارسی فانٹس کے نستعلیق نما کیریکٹرس کو فانٹ کی شکل میں بنایا۔ حالانکہ نستعلیق نام بھی نسخ اور تعلیق کا مرکب نام تھا، لیکن میں نے نستعلیق نما نسخ فانٹ بنائے تو ان کو ’نسق‘ فانٹ کہا۔ اس قسم کے ایک اردو نقش فانٹ میں ہی ’سمت‘ نکالا گیا تھا۔ بہر حال بات پھر اردو کمپیوٹنگ پر چلی گئی۔ مدعا یہ تھا کہ ایسی سائٹس جو ٹیکسٹ بیسڈ ہوں، تو کتنی تیزی سے لوڈ ہوں گی انٹر نیٹ پر۔ اور اسی وجہ سے میں نے صرف اور صرف ورڈ داکیومینٹ اور ؤیکسٹ فائلوں میں کتابیں فراہم کرنا شروع کیں تاکہ لوگ اس سے واقف ہو سکیں کہ نوٹ پیڈ پر بھی اردو لکھی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے کسی سافٹ وئر کی ضرورت نہیں۔یہ واقعی شرم ناک بات ہے کہ ہندوستانی ادارے یونی کوڈ میں ل چسپی نہیں لے رہے ہیں۔ پاکستانی اخبارات تو اب کئی یونی کوڈ میں ویب سائٹ بنا رہے ہیں، لیکن ہندوستان میں محض سیاست نے اپنی کچھ خبریں یونی کوڈ میں فراہم کی ہیں۔ یہی حال اعتماد، حیدر آبا دکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اخباروں اور جریدوں کی ویب سائٹ بھی مکمل یونی کوڈ میں ہو۔

تصنیف حیدر: کتابوں کے کاپی رائٹ کے تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے، کیا اردو میں پرانی تمام اہم کتابوں کو انٹرنیٹ پر کاپی ایبل ٹیکسٹ کی صورت میں فراہم کرانے کا کوئی بڑا منصوبہ بن جانا چاہیے؟

اعجاز عبید: جواب نمبر ۷ میں اس کا جواب بھی آ رہا ہے۔

تصنیف حیدر: آپ نے اتنا کام کیا ہے، اس کے باوجود لوگ بہت حد تک اس سے واقف نہیں، تشہیری عمل اچھے کام کو بہت سے لوگوں تک پہنچا سکتا ہے، اس سے گریز کی وجوہات کیا ہیں؟

اعجاز عبید:تشہیر سے گریز؟ نہیں گریز تو نہیں، لیکن میں خود اپنے آپ کو پروجیکٹ کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہاں، دوسرے اگر ایسا کریں تو خوشی ہوتی ہے، جو ظاہر ہے۔ کچھ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تشہیر کے لئے جو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں، وہ مجھے نہیں آتے۔

تصنیف حیدر: اس وقت پوری دنیا میں اردو کے بڑے آن لائن ادبی ادارے کون سے ہیں، جو واقعی ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔

اعجاز عبید: ہندوستان میں تو محض این سی یو پی ایل ہے، سی ڈیک جو پہلے اردو کے لئے کام کرتا تھا، وہ بھی اب فروغ اردو کاؤنسل کے لئے ہی کام کر رہا ہے۔ البتہ ان کے اپنے اردو کے لئے کئے جانے والے کام کی تشہیر قطعی پسند نہیں۔ اردو کے لئے کی بورڈ بنا دیا اور کچھ فانٹ بنا دئے۔ اور یہ دونوں کام پہلے ہی ہو چکے تھے۔ خود میں پہلا کی بورڈ 2002 میں بنا چکا تھا۔ اور اردو کاؤنسل کے فانٹ سے پہلے نفیس نستعلیق بلکہ علوی اور جمیل نستعلیق فانٹ بھی بن چکے تھے۔ پاکستان میں بھی شروع میں مقتدرہ زبان اردو فعال تھا، لیکن اب وہ بھی فعال نہیں رہا۔ اس لئے میں تو یہی کہتا ہوں کہ اب محض افراد ہی وہ کام کرتے رہے ہیں جو اداروں کو کرنا چاہیے۔مثلاً محمد علی مکی تن تنہا اردو لینکس بنا کے رلیز کر چکے ہیں۔ میری لائبریری بھی فرد واحد کا کام ہے۔ ادھر پاکستان میں شاکر القادری جیسے نے بھی القلم فانٹس اور القلم لائبریری پروجیکٹ شروع کر رکھا ہے۔ اردو محفل کے پلیٹ فارم پر بھی کئی پروجیکٹ شروع ہوئے۔ لیکن سرکاری نوعیت کا کوئی فعال ادارہ نہیں سامنے آ سکا۔ اپنی لائبریری کے پروجیکٹ کے سلسلے میں بھی میں نے علی گڑھ میں شعبۂ اردو کے صدر سے بات کی، ظاہر ہے یو جی سی وغیرہ کی فنڈنگ سے یہاں کلاسیکی کتابوں کی کمپوزنگ اور ڈجیٹائزیشن کا پروجیکٹ احسن طریقے سے چل سکتا ہے۔ لیکن وہاں بھی مایوسی ہوئی۔ اصغر عباس صاحب جب سر سید اکادمی کے صدر تھے، تو انہوں نے سر سید کی ساری کتابیں اسکین کرا دیں۔ ان کو بھی مشورہ دیا تھا کہ کمپوز بھی کروا دیتے تو بہتر تھا۔ لیکن یہ کام بھی آج تک کسی نے نہیں کیا۔

تصنیف حیدر: معاصر ادیبوں کے تعاون کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا ادیب اپنی تحریروں کو فراہم کرانے میں دلچسپی دکھاتے ہیں یا یہ ایک مشکل کام ہے؟

اعجاز عبید: پاکستان کے ادیبوں کا تعاون تو ضرور مل رہا ہے لیکن ہندوستانی ادیبوں کا نہیں، یا برائے نام۔ ادیب محض اپنی نا اہلی کی وجہ سے کاہلی کا شکار ہیں، ورنہ اپنی شہرت کی خاطر تو دوسرے کئی اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں۔

تصنیف حیدر: انٹرنیٹ پر اردو کو فروغ دینے کے وہ منصوبے کیا ہیں، جو آپ کے ذہن میں ہیں؟

اعجاز عبید: مزید منصوبے یہی ہیں کہ جتنی کتابیں ممکن ہوں، اور جن کا کاپی رائٹ کا مسئلہ نہ ہو، ان کو کمپوز کروا سکوں۔ یا کسی طرح بھی ان کی فائلوں کا حصول ممکن ہو جائے۔ ہندوستانی اردو کے ادیب تو ویسے بھی اس معاملے میں کاپی رائٹ کے اصولوں کے پابند نہیں۔ برائے نام ہی کتابوں پر فخر کے ساتھ لکھ دیا جاتا ہے کہ کاپی رائٹ محفوظ۔ لیکن ادیب حضرات خود ہی اپنی کتابوں کی فائلیں مجھے فراہم کراتے ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ ان کی اجازت ہی ہوتی ہے۔ البتہ کلاسیکی کتب کی فائلیں ملنا مشکل ہوتی ہیں کہ ان کے پبلشرس، بلکہ کوئی بھی پبلشر خود اپنے پاس کی فائل فراہم کرنا پسند نہیں کرتا۔ حالانکہ ان پر مصنف کا کاپی رائٹ ختم بھی ہو چکا ہو تو۔ مشہور عام کتابیں جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں، وہ کاپی رائٹ کے تحت بھی ہیں، جیسے ابن صفی کے ناولس جو انٹر نیٹ پر جگہ جگہ دستیاب ہیں، لیکن ان کے صاحب زادے احمد صفی قانونی قدم اٹھانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ اس لئے اگرچہ اردو محفل کے ارکان نے ہی کئی ناولوں کو کمپوز بھی کیا، لیکن ان کو آن لائن نہیں کیا گیا ہے۔ مولانا آزاد، مولانا مودودی وغیرہ کی کتابیں بھی اسی طرح کاپی رائٹ کے تحت آ جاتی ہیں۔ حالانکہ مولانا آزاد کی کتب پر اب کاپی رائٹ نہیں رہا۔

تصنیف حیدر: آپ کے ساتھ جو لوگ کام کر رہے ہیں، ہم ان کے بارے میں بھی جاننا چاہیں گے، وہ جو اردو زبان و ادب کے لیے واقعی محنت کر رہے ہیں

اعجاز عبید: بزم اردو میں سیف قاضی محض تکنیکی کام سنبھالے ہوئے ہیں، اگرچہ کچھ پرانی کتابیں جو اردو لائبریری ڈاٹ آرگ میں تھیں، ان کو وہ بھی وہاں سے اتار کر بزم اردو میں شامل کر رہے ہیں، اور میں بھی۔ لیکن نئی کتابیں بہر حال میرے ہی ذمے ہیں۔ اصل کام کے لئے اب تک کوئی بھی مدد گار نہیں مل سکا۔

تصنیف حیدر: آن لائن رسالے سمت کا تجربہ کیسارہا، اسے فری میں فراہم کرانے کے بجائے اگر آپ اس کی کچھ قیمت رکھ دیتے تو شاید یہ زیادہ فروخت ہوتا، آپ کا کیا خیال ہے؟

اعجاز عبید: آن لائن جریدے کی قیمت کس طرح حاصل کی جائے، یہ بھی ایک علم ہے، اور میں اس سے نا بلد بھی ہوں ۔ اب کون اس کے لئے پے پال یا پیسہ پے میں اکاؤنٹ بنائے۔ خود میرا کریڈٹ کارڈ بھی نہیں ہے۔ اور پھر قیمت دے گا کون؟ اردو کتابیں بھی تو زیادہ تر مفت ہی بانٹی جاتی ہیں۔ جن کو اس حد تک اردو ادب سے دل چسپی ہوتی ہے کہ وہ کتب خریدنے کی سوچیں بھی، ایسے لوگوں کی آسانی سے گنتی کی جا سکتی ہے! خود میں نے بھی بہت کتابیں خرید رکھی ہیں، لیکن پہلے اسی کی دہائی تک پچاس روپیے تک قیمت کی، بعد میں نوے یا دو ہزار کے شروع تک زیادہ سے زیادہ سو روپئے تک۔ اور ادھر دو سال میں تو صرف ایک کتاب خریدی ہے، مشتاق یوسفی کی ’شام شہر یاراں‘!! غرض کہنا یہی ہے کہ جب میں ہی کتابیں نہیں خرید پاتا، تو کس سے ایسی امید رکھی جا سکتی ہے! ’سمت‘ کو باقاعدہ کاغذی صورت میں نکالنے کی کوشش ایک زمانے میں کراچی سے کچھ لوگوں نے کی تھی۔ لیکن یہ بیل منڈوے نہیں چڑھی۔

تصنیف حیدر: اردو رسم الخط کے تعلق سے آپ کی رائے کیا ہے، کیا اسے محفوظ کرنے اور فروغ دینے میں انٹرنیٹ اور فیس بک کا کردار بہت اہم رہا ہے؟

اعجاز عبید: گو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں اردو اپنے رسم الخط کی وجہ سے پچھڑ جائے گی، محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔اردو کو اپنے ہی رسم الخط کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ اسی رسم الخط کے ساتھ س کا نام اردو ہے، ورنہ پھر اسی کو ہندی کہا جانے لگے گا!!! اردو رسم الخط کو نستعلیق ہونا میری بھی پسند ہے۔ اور اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں اردو کو اپنے رسم الخط کے ساتھ فروغ دینے کے لئے یونی کوڈ کی ترقی بہت ضروری ہے۔ اردو کی کتابیں یا شاعری وغیرہ تصویری یا رومن شکل میں دینا ادیب کی تشہیر ہو سکتی ہے ، اردو ادب کی بھی ترقی کہی جا سکتی ہے لیکن اردو زبان کی نہیں۔

2 تبصرے:

anwerjawaid53 کہا...

Aijaz Ubaid sb ny hamare 4 majmouey Urdulibrary.org per upload kiey un ka shukreya:
1. INTEZAR KAY POADEY published from Karachi 1989
2.AIETBAR KI SHABNEM unpublished composed inpage script
3.Dhoop Aour Saiebaan collected/selected from net forums
4.Aqeedat kay Qatrey Hamdiya,natiya kalam ka majmoua
SAMT mei bhi wo qadre numaindagi detay rahey

Syed Anwer Jawaid Hashmi free lancer;writer,translator,poet Karachi

urkhan کہا...

اعجاز صاحب! آپ کی کوششوں کو سلام۔ آپ نے اردو کے لیے اتنا کچھ کیا لیکن سچ بات وہی ہے کہ آپ کو تشہیر کرنے کا طریقہ نہیں معلوم۔

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *